ام لیلی نے کہا اے میرے بیٹا اکبر
ہو گئی ماں تیری اب دشت میں تنہا اکبر
تیرے جاتے ہی میری آنکھ کا سب نور گیا
تو میرے پاس تھا جانے اب کہاں دور گیا
چھا گیا میرے مقدر میں اندھیرا اکبر
دشت غربت میں مددگار میرا کوئی نہیں
رن میں گھیرے ہے ستمگار میرا کوئی نہیں
تھا ضعیفی کا میرا تو ہی سہارا اکبر
کربلا شام کا دربار یا کوفے کی گلی
پشت پے درے ستمگر نے لگائے جب بھی
ماں نے ہر وقت مصیبت میں پکارا اکبر
نیزہ سینے پے لگا درد مجھے ہوتا ہے
زخم تم کو ہے ملا درد مجھے ہوتا ہے
ٹکڑے ٹکڑے ہے ہوا میرا کلیجہ اکبر
ٹھوکریں کھاتی دیواروں سے در ملتا نہیں
ہر طرف ڈھونڈتی ہوں نور نظر ملتا نہیں
اب نظر مجھکو نہیں آتا ہے رستہ اکبر
آؤ آؤ میرے دلبر میرے اکبر آؤ
روح شبیر ہو ہمشکل پیمبر آؤ
دشت میں ہے مادر مضطرکا ہے نوحہ اکبر
نوحہ شاہد نے لکھا غم سے جگر پھٹنے لگا
سن کے روداد رضا سارا جہاں ہلنے لگا غم سے ماں ہو گئی اک شب میں ضعیفہ اکبر