بھائی شبیر آپ کے تمام دکھ درد بانٹوں گی میں زینب ہوں
آپ سجدے میں سر کٹوائیں گے اور میری چادر لوٹ لی جائے گی میں زینب ہوں
آپ کے اکبر و اصغر کا صدقہ میں ایسے اتاروں گی
اپنے عون و محمد وار دوں گی
نہ اپنے بیٹوں کو روؤں گی نہ اُن کی لاشوں پر آؤں گی شبیر میں زینب ہوں
مادرِ ام البنین کا وہ بیٹا ہے کہ جس کے مان پر میں کربلا آؤں گی
بی بی زینب نے رو کر یہ بین کیا
غازی عباس کے بازو کٹ جائیں گے تب اُس کے فرائض میں نبھاؤں گی
شبیر میں زینب ہوں
جب خیام کو آگ لگے گی تو عابدِ بیمار کو میں خود اٹھاؤں گی
اور جلتے خیمے سے باہر لاؤں گی
چاہے میری نسل ختم ہو جائے آپ کا بیٹا سجاد بچاؤں گی
شبیر میں زینب ہوں
کوفے میں علی کی بیٹیوں سے بدروحنین کے بدلے یوں لیئے جائیں گے
سارے سفر کی درد ستائیوں سے
لوگ پتھروں کی بارش کریں گے میں اپنے بابا کے بدلے چکاؤں گی
شبیر میں زینب ہوں
اکبر کے قاتلوں کے ساتھ جب مجھے کربلا سے شام تک چلنا پڑے گا
نہ پوچھیے بھائی کیسے کلام کرنا پڑے گا
آپ نیزے پر قرآن سنانا میں خطبے پڑھوں گی
شبیر میں زینب ہوں
آپ کے سینے پر سونے والی کی قید خانے میں سانس رک جائے گی
اصغر کو یاد کر کر کے روئے گی
اس لیے میں سکینہ کی قبر میں اصغر کا کرتا رکھوں گی
شبیر میں زینب ہوں
مظلوم بھائی کے گلے پر بہن بوسے دیتی رہی
بھائی کو گلے سے لگا کر بی بی
کہتی رہی
تجھے کفن بھی آ کر پہناؤں گی اور قید کا حال بھی سناؤں گی
شبیر میں زینب ہوں