Ghareeb Ka Ghareeb Sir | Raza Abbas Zaidi Noha 2021 Lyrics


کبھی یہ شیریں کے گھر ملا ھے
کبھی یہ راہب کے گھر گیا ھے
کبھی شجر پر رسن سے باندھا
کبھی یہ تندور میں رکھا ھے
نہ جانے اسکا سفر ھے کیسا
نہیں ھے مظلوم کوئی ایسا

غریب کا یہ غریب سر ہے جو در بدر ہے

ہے ریش جسکی لہو میں ڈوبی
رگیں بھی سوکھی ہوئی ہیں اسکی
بھری ہے زلفوں میں خاک ہائے
کٹے ہیں لب اور جبیں ہے زخمی
عیاں ہیں چہرے سے غم بَلا کے
ہو جیسے مارا رُلا رُلا کے

چلا تھا جسوقت اس پہ خنجر
تھا گود میں فاطمہؑ کی یہ سر
کھڑی تھیں ستر قدم پہ زینب
گرا یہ سر جب زمیں پہ کٹ کر
اُٹھایا زلفوں سے شمر نے سر
ٹپک رہا تھا لہو زمیں پر

سوار نوکِ سناں پہ ہوکر
چلا ہے کربولا سے یہ سر
نظر ہے اکبرؑ کے سر کی جانب
عجیب غربت کا ہے یہ منظر
کرے یہ اکبرؑ سے جب بھی باتیں
تو خون روتی ہیں اسکی آنکھیں

یہ سر جو خولی کے ہاتھ آیا
عجیب ظالم نے ظلم ڈھایا
گھر اُسکے زہراؑ تڑپ کے پہنچیں
جب اُس نے تندور میں چھپایا
کئے جو زہراؑ نے بین روکر
تڑپ رہا تھا حُسینؑ کا سر

نظر پڑے جب بہن کے سر پر
پکارے عباسؑ کو تڑپ کر
طمانچہ جب بھی سکینہؑ کھائے
زمیں پہ گر جائے ھائے یہ سر
کوئی جو عابدؑ پہ ظلم ڈھائے
پُکارے نیزے سے ھائے ھائے

گری تھی ناقے سے جب سکینہؑ
وہیں یہ سر بھی ٹھہر گیا تھا
نظر نہ آئی جب اِسکو بیٹی
تڑپ زینبؑ کی سمت دیکھا
کہا یہ زینب سے جلد جاؤ
میری سکینہؑ کو ڈھونڈ لاؤ

ستم یہ دربار میں ہوا تھا
غریب سر طشت میں رکھا تھا
یذید دندانِ شاہِ دیں پر
چھڑی کوہنس ہنس کےمارتاتھا
سکینہؑ عابدؑ کو دیکھتی تھیں
پدر کی غربت پہ رورہی تھیں

ہے شام کی قید کا یہ منظر
ملا سکینہؑ کو باپ کا سر
رضا و ذیشان تھی قیامت
کہا سکینہؑ نے جب لپٹ کر
نصیب کیا ہوگیا ہمارا
ہے میرے سینے پہ سر تمہارا

1,115 Views

Scan this QR code to view these lyrics on your mobile devices.

More
Lyrics

More Nohay Lyrics Available On The APP

Screenshot