کبھی یہ شیریں کے گھر ملا ھے
کبھی یہ راہب کے گھر گیا ھے
کبھی شجر پر رسن سے باندھا
کبھی یہ تندور میں رکھا ھے
نہ جانے اسکا سفر ھے کیسا
نہیں ھے مظلوم کوئی ایسا
غریب کا یہ غریب سر ہے جو در بدر ہے
ہے ریش جسکی لہو میں ڈوبی
رگیں بھی سوکھی ہوئی ہیں اسکی
بھری ہے زلفوں میں خاک ہائے
کٹے ہیں لب اور جبیں ہے زخمی
عیاں ہیں چہرے سے غم بَلا کے
ہو جیسے مارا رُلا رُلا کے
چلا تھا جسوقت اس پہ خنجر
تھا گود میں فاطمہؑ کی یہ سر
کھڑی تھیں ستر قدم پہ زینب
گرا یہ سر جب زمیں پہ کٹ کر
اُٹھایا زلفوں سے شمر نے سر
ٹپک رہا تھا لہو زمیں پر
سوار نوکِ سناں پہ ہوکر
چلا ہے کربولا سے یہ سر
نظر ہے اکبرؑ کے سر کی جانب
عجیب غربت کا ہے یہ منظر
کرے یہ اکبرؑ سے جب بھی باتیں
تو خون روتی ہیں اسکی آنکھیں
یہ سر جو خولی کے ہاتھ آیا
عجیب ظالم نے ظلم ڈھایا
گھر اُسکے زہراؑ تڑپ کے پہنچیں
جب اُس نے تندور میں چھپایا
کئے جو زہراؑ نے بین روکر
تڑپ رہا تھا حُسینؑ کا سر
نظر پڑے جب بہن کے سر پر
پکارے عباسؑ کو تڑپ کر
طمانچہ جب بھی سکینہؑ کھائے
زمیں پہ گر جائے ھائے یہ سر
کوئی جو عابدؑ پہ ظلم ڈھائے
پُکارے نیزے سے ھائے ھائے
گری تھی ناقے سے جب سکینہؑ
وہیں یہ سر بھی ٹھہر گیا تھا
نظر نہ آئی جب اِسکو بیٹی
تڑپ زینبؑ کی سمت دیکھا
کہا یہ زینب سے جلد جاؤ
میری سکینہؑ کو ڈھونڈ لاؤ
ستم یہ دربار میں ہوا تھا
غریب سر طشت میں رکھا تھا
یذید دندانِ شاہِ دیں پر
چھڑی کوہنس ہنس کےمارتاتھا
سکینہؑ عابدؑ کو دیکھتی تھیں
پدر کی غربت پہ رورہی تھیں
ہے شام کی قید کا یہ منظر
ملا سکینہؑ کو باپ کا سر
رضا و ذیشان تھی قیامت
کہا سکینہؑ نے جب لپٹ کر
نصیب کیا ہوگیا ہمارا
ہے میرے سینے پہ سر تمہارا